Hazrat adam story in urdu | life of prophet Adam

Hazrat adam story in urdu | life of prophet Adam




اللہ‎ تعالیٰ نے اس دنیا میں سب سے جنات کو آباد کیا مگر انکی سر کشی اور فساد کے بائس فرشتو ں کی افوا ج بھیج کر انہں سمندر بُرد کردیا اور اس طرح زمین کے اصل حقدار یعنی حضرتِ انسان کے آباد ہونے کی رہ حموار ہوئی قرآن پاک میں اللہ‎ اس کسسے کی ابتدا اپنے اور فرشتو کے مابین ہونے والے ایک مکالمے سے کرتے ہیں جب اللہ‎ تعالیٰ علان کرتے ہیں میں زمین میں اپنا خلیفہ یعنی نائب بنانے والا ہوں فرشتے جواب میں فرماتے ہیں کیا تو زمین میں ایسا نائب بنانا چاہتا ہے جو فساد پھیلا ے اور خون بہاے حلانکے ہم تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں جواب میں اللہ‎ تعالیٰ نے فرمایا میں جو کچھ جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے کھنکھنا تی مٹی سے ایک پُتلا بنایا جاتا ہے اور فرشتوں کو اس بات کا حکم بھی دیا جاتا ہے جب اسے میں مکمّل کرلو ں اور سنوار لو ں اور اس نیں روح پھونک دوں تو تم اسکے سامنے سجدہ ریز ہو جانا
                   

                                                                                  زمین سے مٹی لانا                  


حضرت عبدالله ابنے عبّاس سے مروی ہے کے جب اللہ‎ نے حضرت آدم ؑ کو فیصلہ کیا تو فرشتوں کو حکم ہوا کے زمین سے مٹی لاو پہلے  حضرت جبراحیل ؑاور پھر حضرت میکاہل ؑ گہے مگر زمین ان سے کہتی میں اللہ‎ کی پانا میں آتی ہوں کے تو مجھ میں سے کچھ کم کرے یا مجھے نقصان پہنچاے دونو آخر اللہ‎ پاک کو بتاتے ہیں آخر میں حضرت از راحیل جاتے ہیں اور زمین کی اس بات کا جواب کچھ یوں دیتے ہیں کے میں بھی اللہ‎ کی پانا مانگتا ہوں کے اسکے دیہے ہوے حکم کی وجہ آوری نا کرو پھر  مختلف رنگو کی مٹی لا کر حاضر کرتے ہیں اس مختلف رنگو کی مٹی سے انسان کی تخلیق دراصل ذات پات اور رنگوں قوم کے بنا ہے ہوے اُ صولو کی سخت نفی کرتی ہے اور اس بات کی کھلی گواہی دیتی ہے کے اللہ‎ کے نزدیق تم میں سے بہترین تقویٰ والے ہیں نا کے عجمی یا عربی روایات میں آیا ہے کے وہ پتلا کافی عرصے تک بھیجان پڑھآ رہا ابلیس جب وہاں سے گزرتا تو اس سے مخاطب ہو کر کہتا کے تم ایک عظیم کم کے لئے پیدا کیے گئے ہو پھر جب مصور کائنات انسان کا حیوالا مکمّل کر لیتے ہیں اور خاک کے پتلے میں روح ڈال دی جاتی ہے تو حضرت آدم ؑ اسلام کی تخلیق مکمّل ہوتی ہے جب آپ کے اندر روح پھونکی گئی تو آپ کو ہوش آتے ہی ایک چھینک اہی فرشتو ں نے آپ سے کہا کہو الحمد لله اور آپ کے الحمد لله کے جواب پر اللہ‎ تعالیٰ فرماتے ہیں کے تم پر اللہ‎ کا رحم ہوا

                                                                                                                       حضرت آدم  کا فرشتوں سے ملنا    


 پھر آپ کو حکم ہوا کے جا کر فرشتو ں سے ملو فرشتو ں نے آپ کو دیکھ کر السلام عليكم کہا تو اللہ‎ نے فرمایا کے آدم یہ آج سے تمہارے تسلیمات ہیں یوں دو اہم سبق انسان کو آفرینش پر کی سکھا دیے جاتے ہیں ایک یہ کے جسے ہی ابتدا میں ہی ایک نا خوشگوار کیفیت کا سامنا کرنا پڑھا چھینک کی صورت میں اسی طرح تمہاری زندگی میں ہر قسم کے مصاہب اہیں گے جس کے جواب میں صابر کے ساتھ اللہ‎ کی ثنا اور شکر گزاری کی رویش اختیار کرنی ہے اسی طرح یہ بھی سکھایا گیا کے باکی نوح کے ساتھ کیسا تعلق رکھنا ہے یہ شوروع میں ہی بتا دیا گیا کے بنی آدم تم امن سلامتی بنانے کے لئے بھیجے گئے ہو اس لئے تمہارے ابتدا ہی کالمات ہمیشہ سلآم پر مبنی ہونے چاہیے اسکے کے بعد اللہ‎ تعالیٰ حضرت آدم کو اشیا کے نام سکھا تے ہیں اور فرشتو ں کے سامنے انہں حاضر کے کے فرشتو ں سے ان اشیا کا نام پوچھتے ہیں تو فرشتے کہتے ہیں اے رب تو پاک ہے اس بارے میں ہمارا علم کچھ نہیں ہمے تی بس اتنا ہی معلوم ہے جتنا علم تو نے ہمے عطا کیا ہے پھر حضرت آدم سے پوچھا جاتا ہے تو وہ جھٹ نام بتا دیتے ہیں اب  اللہ‎ تعالیٰ فرشتوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کے کیا میں نے نہیں کہا تھا کے میں وہ جانتا ھوں جو تم نہیں جانتے

   ابلیس کا سجدہ نا کرنا 


پھر سب کو حکم ہوتا ہے کے آدم کے سامنے سجدے میں گر پڑو اور تمام فرشتے سجدے میں گر پڑتے ہیں سوا ہے ابلیس کے ابلیس کے بارے میں ہم واقف ہیں کے یہ دراصل جنّات میں سے تھا جو اپنے زودو عبادت کی بنیاد پر احزازی طور پر فرشتو ں والے کم اور فا ہض ہو گیا تھا اس باغی حرکت پر اللہ‎ تعالیٰ جلال میں ٰ ابلیس سے دریافت کرتے ہیں کے تمہیں یہ سجدہ نا کرنے سے کس چیز نے روکا تو وہ کہنے لگا میں اس انسان سے بہتر ھوں اےرب تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اس انسان کو مٹی سے لمحہ بھر کا تکبر وہ بھی خالق کائنات کے سامنے اسکے کے تمام کیے کراے پر پانی پھیر  گیا اور ورآ زیل اپنے منسب سے فارغ دربار سے نکال دیا گیا حکم باری تعالیٰ ہوا تو اتر یہاں سے تو اس لاہق نہیں کے تکبّر کرے یہاں پس باہر نکل تو ذلیل ہے تو وہ ملہ هون روزے قیامت تک کی موہلت یعنی زندگی مانگتا ہے جو اسے دے دی جاتی ہے پھر اپنی موہلت مانگنے کی وجہ بیان کرتے ہوے کہتا ہے کے چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں بھی لوگو ں کے لئے تیری سیدھی رہ پے بیٹھوں گا پھر ان پر آھوں گا انکے سامنے سے اور پیچھے سے اور انکے داہیں سے اور انکے باہیں


اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نا پاہے گا یوں شیطان دربار سے نکالا جاتا ہے اور ادر حضرت آدم کی نسل  سے آنے والے تمام بنی نوح انسان کی عروہ کو جمع کر کے عہد لیتے ہیں کے کیا وہ تمہارا رب نہیں ہم سب نے اس سوال کا جواب یکس زباں ہو کر دیا تھا کیو نہیں اے رب ہم اس بات پر گوا ہیں اس وقت حضرت آدم تمام انسانو ں کو دیکھتے ہیں انہں،  آنے والے انبیا کی عروہ الگ سے چمکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے مگر آپ کو اس بات پر حیرانی ہوتی ہے کے تمام انسان ایک جسے نہیں اپنے رنگ روپ اور نسب میں سب الگ ہیں وہ باری تعالیٰ سے دریافت کرتے ہیں کے اے اللہ‎ تو نے اس سب کو یکساں کیوں نہیں بنایا جواب آتا ہے کیونکے مجھے اپنے بندو ں کی طرف سے شکر گزاری بہت عزیز ہے

   حضرت آدم کی ہوا سےملا قات 


جنّت میں کچھ
ارصہ قیام کے بعد حضرت آدم کو ایک خلش محسوس ہونے لاگتی ہے فرشتے تو ہر دم رب کی ثنا میں مشغول ہوتے ہیں اب آپ کیا کرے ایک علم الاسما آپ کو عطا ہو چکا مگر اس علم کے بابد تو فرشتے کچھ نہیں جانتے کس سے گفتگو کرے کہاں کرار پاے ایک دن جب سو کر اٹھتے ہیں تو اپنے سامنے ایک اپنی ہم نو عورت کو پآ تے ہیں جو انکی پسلی سے پیدا شدہ تھی پوچھتے ہیں تم کون ہو تو وہ کہنے لگی عورت پھر پوچھا کے تمہاری تخلیق کا کیا مقصد ہے تو کہنے لگی تا کے تم میرے اندر قرار پاو فرشتے حضرت آدم سے پوچھتے ہیں کے اے آدم اس عورت کا نام کیا ہے تو آپ کہتے ہیں ہوا معنی جاندار پوچھا کیوں تو کہنے لگے کیونکہ یہ ایک جاندا شے سے تخلیق ہوئی ہے اس سے ہمے اندازہ ہوتا ہے کے مرد اور عورت کے جوڑے کی تخلیق کا مقصد آپس میں امن وعاشتی کے ساتھ ایک دوسرے کے اندر سکون اور کرا ر پانا ہے یہ نہیں دم طاقت کے حصول کی کشمکش میں آپس میں لڑتے رہے


      حضرت آدم کا درخت کے پاس جانا


پھر آپ دونو ں کو حکم ہوتا ہے کے جنّت میں چین و امن کے ساتھ رہو مگر ہاں یہ خیال رہے کے اس درخت کے پاس کبھی مت جانا وہ کون سا درخت تھا کوئی اسے خوشہ گندم بتاتا ہے تو کوئی اسے سیب کا درخت کہتا ہے تشبیحات بھی الگ الگ ہیں کسی کی راے  میں وہ درد تکلیف کا درخت تھا تو کوئی اسے  جاودانی حیات کا درخت بتاتا ہے مگر سچ تو یہ ہے کے ہم صرف گمان ہی کر سکتے ہیں قرآن میں واضح الفاظ میں درج ہے کے وہ درخت بلکل اہم نا تھا بلکے رب کا حکم اہم تھا قرآن میں اس درخت کے بارے میں الفاظ اس قدر مبہم ہیں کے لگتا ہے کے اللہ‎ تعالیٰ نے کسی بھی درخت کی طرّف اشارہ کر کے حضرت آدم کو کہا کے بس اس درخت کا پھل نہیں کھانا باکی جو چاہے کھاو پیو مگر انسان کا فتوی تجسسُس اور شیطان کس بار بار بہکاوا انہں اس درخت کی طرف ماہل کرتا ہے ابلیس بارے ناسہانا انداز میں ان دونو ں کو سمجاتا ہے کے دیکھو میں تمہارا دوست ھوں اور تم کو اس درخت سے اس لیے روکا جا رہا ہے کے کہیں تم ہمشہ یہاں رہنے والے نا بن جاو


        حضرت آدم کو جنت سے نکالا جانا 


آخر کر حضرت آدم اور ہوا اس درخت کا پھل کھا لیتے ہیں حکم ہوتا ہے کے اتر جاؤ تم سب کے سب یہاں سے جاؤ دنیاں میں رہو وہاں تمہارا ٹھکانہ اور قیام تعام ہوگا اور تم وہی رہو گے ایک دوسرے کے دشمن بن کر یعنی انسان اور شیطان کہا جاتا ہے کے جب اپ سے یہ ختا ہوئی تو اللہ‎ فرشتو ں کو حکم دیتے ہیں کے آدم سے اسکی خللت اور اراہش واپس لے لو چناچہ آپ کے سر سے تاج اور دیگر اراہشے اتار لی جاتی ہیں تو آپ رو رو کے چلا تے ہیں معافی معافی ندا آتی ہے کے اے آدم کیا مجھ سے باگ رہے ہو تو آپ فرماتے ہیں نہیں اے رب مگر  اپ سے شرم آرہی ہے دنیا ں میں آکر ایک ارصہ سخت ندا مت کی حالت میں روتے ہوے گزارتے ہیں


         آدم کو جب علم دیا گیا

پھر رخمان کی رخمانیت جوش میں آتی ہے تو آپ کو پہلے علم کی طرّح ایک اور علم دیا جاتا ہے پہلا علم دنیاوی علوم کے سرچشمے یعنی عقل و خرت کا ملا اور دوسرا پہلی وہی کی صورت میں اُخروی نجات  کا اس اوالین وہی سے آپ کو توبہ کا سلیقہ اور اسکے الفاظ سکھایے جاتے ہیں اور معاف کردیا جاتا ہے پھر ایک شفیق استاد کی مانب بڑی محبّت سے حضرت آدم کو سمجایا جاتا ہے کے تمہارا گھر فلحال یہی ہے مجھے یاد رکھنا اور جب جب میری جانب سے میرے رسول تمہارے پاس ھدایت لے کر اہیں تو انکی اتتباع کرناتم ایسا کرو گے تو نا تمہیں کوئی غم ہوگا نا کوئی منال تم واپس اپنے اصلی گھر اور مقام یعنی جنّت کو حاصل کرلو گے اب ہم حضرت آدم کے رویہ کا تکا بر ابلیس سے کرے تو عبدل رحمٰن اور شیطان کا فرک صاف واضح ہو جائے گا ایک غلطی حضرت آدم ہوا سے ہوئی اور ایک ابلیس سے تو دونوں کے درمیان فرک کیا تھا فرک یہ تھا کے حضرت آدم بے فوری رجوع کیا رو رو کے معافی مانگی اور اپنی حرکت پر سخت ندامت کا اظہار کیا جب کے ابلیس اپنی حرکت پر نا صرف ڈٹا رہا بلکے اپنے تکبّر کی توحجی بھی پیش کرنے لگا اور جب اس سے یقین ہو گیا کے میں تا قیامت ملا عون ہو گیا ھوں تو پھر بجاے معافی مانگنے کے الٹا اللہ‎ کو اپنی گمراہی کا مجب ٹھیرانے لگا چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے

میں بھی لوگوں کے لئے تیری سیدھی راہ پر بیٹھوں گا تو  یوں ہمے معلوم ہوا کے رحمان کے بندے گناہ کے بعد ایک داغ ندا مت اپنے سینے پے سجا تے ہیں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوے دوبارہ اللہ‎ کا قرب چاہتے ہیں اور اسکے بر خلاف ابلیس کی سنّت انا پرستی اور  گمند ہے دعا ہے کے اللہ‎ تعالیٰ ہمے گورور تکبّر گمند اور آنا جیسی بیماریوں سے محفوظ فرماے آمین






Comments