پہنچانے لگے
اس حالت میں لے جانے کے لیے ایک کھٹارہ ایمبولینس بغیر نرس کے بھیج دیں گی اس پر ستم یہ کہ ایمبولینس قائداعظم کو انکے رہائش گاہ تک پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں خراب ہوگئی جب دوسری ایمبولینس منگوائی گئی تو اس دوران ایک گھنٹے کا وقتلگ گیا جس میں محترمہ فاطمہ جناح بیمار بانی پاکستان کو پنکھا جلتی رہی اس سوال کا جواب آج کسی کے پاس بھی نہیں کہ خرابایمبولینس بیجنا ایک سازش تھی یا ایسا ایک بے سر و سامانی سے لڑتی سیاست میں کمیونیکیشن کے عیب کی وجہ سے ہوا ایسا بھیکہا جاتا ہے کہ قائد اعظم کی آمد کے بارے میں لیاقت علی خان آگاہ بھی نہیں ہے یہ بات بھی پیش کی جاتی ہے کہ اس وقتپورے کراچی میں صرف دو ایمبولینس تھیں جن میں سے ایک کو قائد اعظم کے لیے بھیج دیا گیا شاید کمیونیکیشن کی تاریخی غلطی ہولیکن بہت سے لوگ آج بھی یہ مانتے ہیں کہ خراب ایمبولینس بنا ایک سوچی سمجھی سازش تھی قائداعظم جب گھر پہنچے تو بیماری سےبری کی طرح نڈال ہو چکے تھے آخری وقت میں ان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح اور ذاتی معالج کے سوا ان کے ساتھ کوئی دوسرا موجودنہیں تھا وہاں موجود لوگوں کے مطابق ان کے آخری الفاظ تھے اللہ پاکستان انہوں نے کہا اور جان آفرین کے سپرد کردیا قائداعظمکے جنازہ میں چھے لاکھ لوگ شریک ہوئے قائد اعظم کی وصیت کے مطابق کی ان کی نماز جنازہ علامہ شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی
قاۂداظم کا مزار کراچی میں ہے
Comments
Post a Comment