حضرت آدم علیہ اسلام اور حضرت موسی اعلیہ اسلام کا واقعہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت موسی علیہ السلام میں بحثہوئی چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام نے حضرت موسی علیہ السلام کو لاجواب کر دیا یقینا آپ یہ بات سن کر حیران ہوئے ہوں گےکہ دونوں نبیوں کی آپس میں ملاقات کب اور کیسے ہوئی کیونکہ آدم علیہ السلام اللہ تعالی کی وہ پہلی تخلیق ہے جو تمام انسانیت کےباپ ہیں اور وہ باپ جنہوں نے اپنی حیات مبارکہ میں ہی جنت کی حسین وادیوں میں سیر کی
دوسری طرف حضرت موسی علیہ السلام اسلام جو کہ حضرت آدم علیہ السلام سے سینکڑوں صدیوں بعد اس دنیا میں تشریف لائے
اور لوگوں کو دین و اسلام کی دعوت دی اور ان کو وہ راستہ سے آگاہ کیا کہ اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں موسی علیہالسلام اللہ کا نبی ہوں میری اطاعت کرو اور اللہ کے راستے پر چلو اس بات پر مزید روشنی ڈالتے ہیں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آدم علیہ السلام اور موسی علیہ السلام میں اپنے پروردگار کے ہاں بحث ہوئیچنانچہ آدم علیہ السلام نے موسی علیہ السلام کو لاجواب کردیا موسی علیہ السلام نے کہا ہاں آپ وہ آدم ہیں جنہیں اللہ تعالی نےاپنے ہاتھ سے بنایا اپنی روح آپ کے اندر بھونکیں آپ کو اپنے فرشتوں سے سجدہ کرایا اور آپ کو اپنی جنت میں بسایا اس کےباوجود آپ نے اپنی غلطی کے باعث لوگوں کو زمین پر گرا ڈالا آدم علیہ السلام نے کہا تم موسی ہو جسے اللہ تعالی نے اپنی رسالتاور اپنے کلام کی فضیلت دیکھ کر برگزیدہ کیا تجھے تختیاں دیں جن میں ہر چیز کی وجہ تھی
اور سرغوشی کے زہر سے تجھے تقرب ادا کیا پھر بتاؤ میری تخلیق سے کتنا عرصہ پہلے تم نے دیکھا کہ اللہ تعالی نے تورات لکھتی تھیموسی علیہ السلام نے بتایا چالیس سال پہلے آدم علیہ السلام نے پوچھا کیا تم نے اس میں لکھا پایا کے آدم نے اپنے رب کی نافرمانیکی اور بھٹک گیا موسی علیہ السلام نے کہا ہاں میں نے دیکھا آدم علیہ السلام نے کہا تم مجھے میرے اس عمل پر ملامت کر رہے ہوجو اللہ تعالی نے میرے اوپر لازم کر رکھا تھا
کہ میں اسے انجام دوں اور وہ بھی میری تخلیق سے چالیس سال پہلے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وسلم نے فرمایا اسطرح آدم علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کو چپ کرا دیا حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت موسی علیہ السلام کی یہ ملاقات ممکنہے جنت میں ہوئی ہو اور ممکن ہے عالم ارواح
میں حضرت موسی علیہ السلام کا مقصد حضرت آدم علیہ السلام کو جس سے طعنہ دینا نہیں تھا کہ انہوں نے غلطی کیوں کی کیونکہ وہغلطی اللہ تعالی نے معاف فرما دی تھی اللہ تعالی کا ارشاد ہے
پھر انہیں ان کے رب نے نوازا اور ان کی تو بے قبول فرمائیں آئی اور ان کی رہنمائی کی ن کا مقصد یہ تھا کہ آپ کی وجہ سے کہتمام انسانوں کو دنیا کے مشکلاتی مصائب کا سامنا کرنا پڑا حضرت آدم علیہ السلام نے اس کے جواب میں وضاحت فرما دیں کہ یہمصائب تو پہلے ہی تقدیر میں لکھے جا چکے تھے اور ان کا فیصلہ بہت پہلے ہو چکا تھا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بارفرمایا آدم علیہ السلام عالم آگئے یہ تکرار تاکید کے لئے تھی تاکہ بخوبی علم ہو جائے کہ آدم علیہ السلام سے جو کچھ ہوا وہ تقدیر الٰہی اورمشیت الٰہی تھا تا
————————————————————————————————————————-
دوسری طرف حضرت موسی علیہ السلام اسلام جو کہ حضرت آدم علیہ السلام سے سینکڑوں صدیوں بعد اس دنیا میں تشریف لائے
اور لوگوں کو دین و اسلام کی دعوت دی اور ان کو وہ راستہ سے آگاہ کیا کہ اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں موسی علیہالسلام اللہ کا نبی ہوں میری اطاعت کرو اور اللہ کے راستے پر چلو اس بات پر مزید روشنی ڈالتے ہیں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آدم علیہ السلام اور موسی علیہ السلام میں اپنے پروردگار کے ہاں بحث ہوئیچنانچہ آدم علیہ السلام نے موسی علیہ السلام کو لاجواب کردیا موسی علیہ السلام نے کہا ہاں آپ وہ آدم ہیں جنہیں اللہ تعالی نےاپنے ہاتھ سے بنایا اپنی روح آپ کے اندر بھونکیں آپ کو اپنے فرشتوں سے سجدہ کرایا اور آپ کو اپنی جنت میں بسایا اس کےباوجود آپ نے اپنی غلطی کے باعث لوگوں کو زمین پر گرا ڈالا آدم علیہ السلام نے کہا تم موسی ہو جسے اللہ تعالی نے اپنی رسالتاور اپنے کلام کی فضیلت دیکھ کر برگزیدہ کیا تجھے تختیاں دیں جن میں ہر چیز کی وجہ تھی
اور سرغوشی کے زہر سے تجھے تقرب ادا کیا پھر بتاؤ میری تخلیق سے کتنا عرصہ پہلے تم نے دیکھا کہ اللہ تعالی نے تورات لکھتی تھیموسی علیہ السلام نے بتایا چالیس سال پہلے آدم علیہ السلام نے پوچھا کیا تم نے اس میں لکھا پایا کے آدم نے اپنے رب کی نافرمانیکی اور بھٹک گیا موسی علیہ السلام نے کہا ہاں میں نے دیکھا آدم علیہ السلام نے کہا تم مجھے میرے اس عمل پر ملامت کر رہے ہوجو اللہ تعالی نے میرے اوپر لازم کر رکھا تھا
کہ میں اسے انجام دوں اور وہ بھی میری تخلیق سے چالیس سال پہلے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وسلم نے فرمایا اسطرح آدم علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کو چپ کرا دیا حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت موسی علیہ السلام کی یہ ملاقات ممکنہے جنت میں ہوئی ہو اور ممکن ہے عالم ارواح
میں حضرت موسی علیہ السلام کا مقصد حضرت آدم علیہ السلام کو جس سے طعنہ دینا نہیں تھا کہ انہوں نے غلطی کیوں کی کیونکہ وہغلطی اللہ تعالی نے معاف فرما دی تھی اللہ تعالی کا ارشاد ہے
پھر انہیں ان کے رب نے نوازا اور ان کی تو بے قبول فرمائیں آئی اور ان کی رہنمائی کی ن کا مقصد یہ تھا کہ آپ کی وجہ سے کہتمام انسانوں کو دنیا کے مشکلاتی مصائب کا سامنا کرنا پڑا حضرت آدم علیہ السلام نے اس کے جواب میں وضاحت فرما دیں کہ یہمصائب تو پہلے ہی تقدیر میں لکھے جا چکے تھے اور ان کا فیصلہ بہت پہلے ہو چکا تھا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بارفرمایا آدم علیہ السلام عالم آگئے یہ تکرار تاکید کے لئے تھی تاکہ بخوبی علم ہو جائے کہ آدم علیہ السلام سے جو کچھ ہوا وہ تقدیر الٰہی اورمشیت الٰہی تھا تا
————————————————————————————————————————-
Hazrat musa story in urdu ,history of hazrat musa,hazrat musa ki kahani in urdu,
Comments
Post a Comment